حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپایگانی (رحمتہ اللہ علیہ) نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی زندگی اور ان کی علمی خدمات کے بارے میں اہم نکات بیان کیے ہیں، ان کے مطابق، امام صادق علیہ السلام کو دیگر ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے مقابلے میں زیادہ موقع ملا کہ وہ اسلامی علوم اور معارف کی اشاعت کریں، اس کا ایک سبب وہ سیاسی حالات تھے جنہوں نے اس زمانے میں علمی سرگرمیوں کے لیے زیادہ آزادی فراہم کی۔
آپ کا علمی مقام نہ صرف شیعہ علماء کے درمیان بلند ہے بلکہ اہل سنت کے بڑے علما نے بھی آپ کی علمی برتری کو تسلیم کیا، مشہور اہل سنت فقیہ، امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ "میں نے جعفر بن محمد سے بڑا فقیہ کسی کو نہیں دیکھا۔" امام صادق علیہ السلام نے مختلف اسلامی اور تجرباتی علوم میں چار ہزار سے زائد شاگردوں کی تربیت کی، جن میں کیمسٹری کے ماہر جابر بن حیان بھی شامل تھے۔
امام صادق علیہ السلام نے نہ صرف اسلامی علوم بلکہ تجرباتی علوم جیسے طب، نباتیات، فلکیات، اور ریاضی میں بھی اپنے شاگردوں کو تعلیم دی،آپ کے علمی مباحثات اور شاگردوں کی تربیت نے اسلامی اور تجرباتی علوم کی ترقی میں گہرا اثر ڈالا، یہ علمی میراث امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایسی گواہی ہے جو آج بھی شیعہ اور سنی دونوں مکاتب فکر کے علمی حلقوں میں تسلیم کی جاتی ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا علمی مقام اس قدر بلند تھا کہ نہ صرف شیعہ علماء بلکہ اہل سنت کے بڑے فقیہ اور محدثین بھی آپ کی فقاہت اور علم کا اعتراف کرتے تھے، آپ کے زمانے میں سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے علمی میدان میں آزادی حاصل ہوئی، جس سے امام صادق علیہ السلام کو علوم دینیہ اور دیگر سائنسی علوم کی نشر و اشاعت کا موقع ملا۔
امام صادق علیہ السلام کی تعلیمات میں صرف دینی مسائل ہی نہیں، بلکہ کائنات کے اسرار، انسانی جسم کی ساخت، کائناتی افلاک اور دیگر طبیعی علوم شامل تھے، آپ نے اپنے شاگردوں کو یہ سکھایا کہ کس طرح قدرت کی تخلیقات میں غور و فکر کر کے خدا کی وحدانیت اور اس کی عظمت کو سمجھا جا سکتا ہے، آپ کی علمی بصیرت اور درس و تدریس کے طریقے نے آپ کو نہ صرف مذہبی پیشوا بلکہ ایک ہمہ جہت علمی رہنما بنایا، جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔
اس طرح، امام جعفر صادق علیہ السلام کا علمی مقام ہر مذہبی اور سائنسی حلقے میں قابلِ احترام ہے اور آپ کی شخصیت کو ہمیشہ علم و حکمت کا منبع تصور کیا جاتا ہے۔